گوادر کا تعارف
پاکستان کے انتہائی جنوب مغرب میں اور دنیا کے سب سے بڑے بحری تجارتی راستے پر واقع صوبہ بلوچستان کا شہر جو اپنے شاندار محل وقوع اور زیر تعمیر جدید ترین بندرگاہ کے باعث عالمی سطح پر معروف ہے۔
نام گوادر اصل بلوچی زبان کے دو الفاظ سے بنا ہے گوا یعنی “کھلی فضا ” اور در کا مطلب” دروازہ” ہے۔
60 کلو میٹر طویل ساحلی پٹی والے شہر گوادر میں اکیسویں صدی کی ضروتوں سے آراستہ جدید بندرگاہ کی تکمیل کا وقت جوں جوں قریب آرہا ہے اس کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ آنے والے وقت میں نہ صرف پاکستان بلکہ چین، افغانستان اور وسط ایشیاء کے ممالک کی بحری تجارت کا زیادہ تر دارومدار اسی بندر گاہ پر ہوگا۔
یکم جولائی 1970کو جب ون یونٹ کا خاتمہ ہوا اور بلوچستان بھی ایک صوبے کی حیثیت اختیار کر گیا تو مکران کو بھی ضلعی اختیار مل گئے۔1977میں مکران کو ڈویژن کا درجہ دے دیا گیا اور یکم جولائی1977کو تربت، پنجگور اور گوادر تین ضلعے بنا دیئے۔
گوادر کا موجودہ شہر ایک چھوٹا سا شہر ہے جس کی آبادی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نصف لاکھ جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق ایک لاکھ افراد پر مشتمل ہے ۔
گوادر بندرگاہ کے بحیرہ عرب کے سرے پر خلیج فارس کے دھانہ پر واقع ہے۔ کراچی کے مغرب میں تقریبا 460 کلومیٹر (290 میل)۔ پاکستان کی سرحد کے مشرق میں ایران سے 75 کلومیٹر (47 میل) اور اور شمال مشرق میں بحیرہ عرب کے پار عمان سے 380 کلومیٹر (240 میل) کے فاصلے پر واقع ہے۔
گوادر بندرگاہ کلیدی مقام آبنائے ہرمز کے قریب واقع ہے جو کہ خلیجی ریاستوں کے تیل کی برآمدات کا واحد بحری راستہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ زمین بند افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں جو کہ توانائی کی دولت سے مالا مال ہیں کی قریب ترین گرم پانی کی بندرگاہ ہے۔
پاکستان اور چین نے مل کر گوادر میں اکیسویں صدی کی ضروتوں کے مطابق بندرگاہ بنانی شروع کر دی ہے۔ چینیوں کے اس شہر میں داخلے کے ساتھ ہی شہر کی اہمیت یکدم کئی گنا بڑھ گئی اور مستقبل کا بین الاقوامی شہر اور فری ٹیکس زون کا اعلان ہوتے ہی ملک بھرکے سرمایہ دار اس شہر میں پہنچ گئے۔
گوادر شہر مستقبل میں ایک بین الاقوامی شہر کی حیثیت اختیار کر جائے گااور نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کا اقتصادی لحاظ سے ایک اہم شہر بن جائے گا اور یہاں کی بندرگاہ پاکستان کے علاوہ چین، افغانستان، وسط ایشیاء کے ممالک تاجکستان، قازقستان، آذربائیجان، ازبکستان، ترکمانستان اور دیگر روسی ریاستوں کو راہداری فراہم کرے گا۔
گوادر بندرگاہ کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ یہ سمندر کے جس حصے پر واقع ہے وہاں کا پانی گرم ہے جوکہ دنیا کہ بہت ہی کم بندرگاہوں کی یہ خصوصیت ہوتی ہے، گرم پانی والے سمندری حصے پر تمام سال تجارتی جہازوں کی آمد و رفت کو جاری و ساری رہتے ہیں یوں تجارت اور مختلف اشیاء کو براستہ سمندر ترسیل کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی، اس کے برعکس جو بندرگاہیں ٹھنڈے پانی پر واقع ہیں ان کے ذریعے تجارت کرنا مشکل ہوتاہے بلکہ مختلف موسموں میں تو ناممکن ہوجاتا ہے۔
اس وقت پاکستان کی اہمیت ایک گیٹ وے یا اہم تجارتی دروازے کی سی ہے۔ پاکستان کو بحر ہند میں اہم چھپے ہوئے خزانوں سے نوازگیا ہے۔
پاکستان گوادر بندرگاہ کی وجہ سے خطے میں سب ممالک سے زیادہ اہم جیوسٹریٹجک پوزیشن کا حامل ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر گوادر بندرگاہ کے ذریعے دنیا کے ممالک میں تجارتی لین دین شروع ہو جائے اور مختلف ممالک اپنی اپنی سکہ رائج القت (کرنسیوں) میں لین دین (تجارت) شروع کریں گے تو پاکستان میں ڈالر کی قیمت کافی حد تک کم ہو جائیگی اور اسکے علاوہ بلوچستان جوکہ پاکستان کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے، میں بہت سارے مقامی افراد کو روز گار مل جائے گا بلکہ نہ صرف پاکستان کے صوبہ بلوچستان بلکہ ملک کے دیگر علاقوں کو بہترین مواقع فراہم ہونگے۔
گوادر بندرگاہ کا ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ اگر امریکہ ابنائے ملاکہ کو بند بھی کر دے توپاکستان اور چین کےلئے بحیرہ عرب کا تجارتی راستہ ہمیشہ کےلئے کھلا رہے گا۔ گوادر بندرگاہ کے ذریعے پاکستان خلیج فارس میں تیل کی ترسیل کےلئے گزرنے والے تمام جہازوں کی نقل و حمل کو مانیٹر کر سکتا ہے۔